May 15, 2024

Warning: sprintf(): Too few arguments in /www/wwwroot/station57.net/wp-content/themes/chromenews/lib/breadcrumb-trail/inc/breadcrumbs.php on line 253
German Chancellor Olaf Scholz (L) and Malaysian Prime Minister Anwar Ibrahim walk side by side after reviewing a military honour guard during an official welcoming ceremony prior to talks at the Chancellery in Berlin on March 11, 2024. (AFP)

ملائیشیا کے وزیرِ اعظم انور ابراہیم پیر کو اسرائیل کے کٹر حامی جرمنی کے دورے کے دوران فلسطینی گروپ حماس کے ساتھ اپنے ملک کے مسلسل تعلقات کا دفاع کرنے پر مجبور ہو گئے۔

7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے بے مثال حملے سے غزہ کی پٹی میں جنگ چھڑ گئی جس میں پانچ ماہ سے زیادہ عرصہ گذرنے کے بعد بھی لڑائی ختم ہونے کے آثار نظر نہیں آتے۔

مسلم اکثریتی ملک ملائیشیا کے اسرائیل کے ساتھ کوئی سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور ملک میں لوگ بڑی تعداد میں فلسطینیوں کی حمایت کرتے ہیں۔

برلن میں جرمن چانسلر اولاف شولز کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے انور سے بار بار حماس کے ساتھ ملائیشیا کے دیرینہ تعلقات اور جنگ پر مؤقف کے بارے میں پوچھا گیا۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ملائیشیا کے روابط حماس کے سیاسی ونگ کے ساتھ ہیں اور مزید کہا: “میں اس کے بارے میں کوئی معذرت نہیں کرتا۔”

“ہمارا کسی عسکری تنظیم یا ونگ سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ بات میں نے اپنے کئی یورپی ساتھیوں (اور) امریکہ کو واضح کر دی ہے۔”

انہوں نے لوگوں پر زور دیا کہ وہ “مسائل کی بنیادی وجہ کو سمجھیں” جس سے تنازعہ پیدا ہوا۔

انہوں نے کہا، “میں جس چیز کو سختی سے مسترد کرتا ہوں وہ یہ بیانیہ، یہ جنون ہے کہ گویا سارا مسئلہ 7 اکتوبر سے شروع اور اس پر ختم ہوتا ہے۔”

انہوں نے مزید کہا، “مظالم، لوٹ مار اور فلسطینیوں کی بے دخلی کو کئی عشرے” ہو چکے ہیں۔

شولز نے جرمنی کے مؤقف کو دہرایا کہ “اسرائیل کو حماس کے دہشت گردانہ حملے کے خلاف ذاتی دفاع کا حق حاصل ہے”۔

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ برلن “غزہ تک مزید انسانی امداد پہنچانا چاہتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یرغمالیوں کو غیر مشروط طور پر رہا کیا جائے اور وہاں کوئی غیر ضروری جانی نقصان نہ ہو۔”

چانسلر نے طویل مدتی امن کو فروغ دینے اور دو ریاستی حل کی جانب کوششوں پر بھی زور دیا۔

حماس کے حملے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی جنگ کے بارے میں جرمنی کا ردعمل اس کے اپنے تاریک ماضی اور ہولوکاسٹ کے دوران نازیوں کے ہاتھوں ساٹھ لاکھ یہودیوں کے قتلِ عام کے جرم پر مبنی ہے۔

اختلافات کے باوجود انور نے اصرار کیا کہ ملائیشیا اور جرمنی کے درمیان اسرائیل-حماس جنگ کے معاملے پر “اعتماد” ہے اور وہ کچھ پہلوؤں پر متفق ہیں جیسے کہ دو ریاستی حل پر زور دینا۔

اسرائیل کے سرکاری اعداد و شمار پر مبنی اے ایف پی کی تعداد کے مطابق حماس کے جس حملے سے جنگ شروع ہوئی، اس میں اسرائیل میں تقریباً 1,160 ہلاکتیں ہوئیں جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔

عسکریت پسندوں نے 250 کے قریب یرغمالی بھی بنائے جن میں سے درجنوں کو نومبر میں ایک ہفتے تک جاری رہنے والی جنگ بندی کے دوران رہا کر دیا گیا۔ اسرائیل کا خیال ہے کہ غزہ میں 99 یرغمالی اب بھی زندہ ہیں اور 31 ہلاک ہو چکے ہیں۔

غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیل کی جوابی بمباری اور زمینی کارروائی میں 31,112 فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *