May 15, 2024

Warning: sprintf(): Too few arguments in /www/wwwroot/station57.net/wp-content/themes/chromenews/lib/breadcrumb-trail/inc/breadcrumbs.php on line 253
4338246-1133268882

سعودی عرب نے عالمی سطع پر جنگوں اور جنگی ماحول کو دنیا کی معاشی تباہی کا پیش خیمہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے ‘دنیا کو امن اور استحکام کی ضرورت ہے۔’ مملکت کی طرف سے اس امر کا اظہار اسرائیل کی غزہ میں جنگ کے ثالثوں میں سے سب سے اہم ملک اور دیگر کی میزبانی کے دوران کہی گئی ہے۔

امریکی وزیر خارجہ چین کے دورے کے بعد سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے ہیں۔

کانفرنس کی میزبانی دنیا میں تیل پیدا کرنے والی اہم مملکت کر رہی ہے جو اپنے مملکتی ویژن 2030 کے تحت 2030 تک توانائی کے وسائل کو پچاس فیصد تک تیل کے بجائے دیگر ذرائع پر منتقل کرنے کا ہدف رکھتی ہے اور 2060 تک تیل پر انحصار کا مکمل خاتمہ کر کے قابل تجدید ذرائع کو اختیار کرنے کا ہدف رکھتی ہے۔

سعودی وزیر خزانہ محمد الجدعان نے جنگ کو عالمی معاشی تباہی کا پیش خیمہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے ‘ دنیا کو امن اور استحکام کی ضرورت ہے۔’

ریاض میں ورلڈ اکنامک فورم کی کانفرنس کے موقع پر سعودی وزیر خزانہ الجدعان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ‘ غزہ کے ساتھ ساتھ یوکرین سمیت دیگر مقامات پر جنگوں نے دنیا کی معاشی رفتار پر بہت منفی اثرات مرتب کر دیے ہیں، عالمی معیشت پر دباؤ کا ماحول ہے۔’

وزیر خزانہ نے مزید کہا ‘ میرے خیال میں ٹھنڈے دماغ والے ملکوں کو اور لیڈروں کو جاری جنگی حالات پر غالب آنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ خطے کو امن و استحکام کی ضرورت ہے۔’

سعودی وزیر توانائی شہزادہ عبد العزیز بن سلمان

سعودی وزیر توانائی شہزادہ عبد العزیز بن سلمان

دریں اثنا سعودی وزیر توانائی شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان نے اس موقع پر کہا ہے سعودی عرب توانائی میں انتخاب کے لیے اپنے ذہن اور دروازوں کو کھلا رکھتا ہے۔ تاہم ضروری ہے کہ اقتصادی امور قابل عمل ہوں۔ وہ اتوار کے روز ریاض میں ورلڈ اکنامک فورم کے خصوصی اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔

شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان نے کہا انہیں یقین ہے کہ دنیا کو توانائی کے تمام ممکنہ ذرائع کی ضرورت ہو گی، ہائیڈرو کاربن سے لے کر جوہری توانائی اور مصنوعی ایندھن تک ایک ایک چیز اہم ہے۔’

وزیر توانائی نے واضح کیا کہ توانائی کا شعبہ قومی دولت فنڈ (PIF) تیل اور گیس کی بڑی کمپنی ‘آرامکو’ کے ساتھ اور بین الاقوامی سطح پر جرمنی، فرانس، اٹلی اور دیگر ممالک کے ساتھ مل کر صاف توانائی کے ذرائع کے لیے قابل عمل کاروباری ماڈل بنانے کے لیے کام کر رہا ہے۔

انہوں نے پالیسیوں، ترغیبات اور ٹیکنالوجی کی ترقی کی شرح کے بارے میں وضاحت کے فقدان کو بڑے چیلنجوں میں شامل قرار دیا اور کہا یہ چیلنج توانائی کے متبادل ذرائع کو تیزی سے اپنانے میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *