May 6, 2024

Warning: sprintf(): Too few arguments in /www/wwwroot/station57.net/wp-content/themes/chromenews/lib/breadcrumb-trail/inc/breadcrumbs.php on line 253
Israeli Prime Minister Benjamin Netanyahu delivers his speech after a meeting with German Chancellor Olaf Scholz in Jerusalem, March 17, 2024. (Reuters)

جرمنی کے چانسلر اسرائیل کے دورے کے موقع پر غزہ کی صورت حال جہاں 31 ہزار سے زائد فلسطینی قتل کیے جا چکے ہہیں اور تقریباً پورے غزہ کو تباہ کر کے لاکھوں فلسطینیوں کو نقل مکانی مکانی پر مجبور کر دیا گیا ہے، انہوں نے ‘غزہ میں اسرائیلی جنگ کو خوفناک حد تک انسانیت کے لیے بھاری قیمت قرار دیا ہے۔’

وہ اتوار کے روز اسرائیل کے دورے پر تھے۔ انہوں نے اس موقع پر کہا ‘ محض یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم فلسطینیوں کو اس حال کھڑے دیکھتے رہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہورہا ہے اور غزہ کی پٹی پر بھوک اور تباہی سے دوچار ہیں۔’

شولز اسرائیلی وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات کے بعد یروشلم میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے انہوں نے شہریوں کی اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتوں اور غزہ کے لوگوں کے لیے انتہائی ناکافی امداد پہنچنے دینے پر اپنی تشویش وزیر اعظم کے سامنے رکھی ہے۔ جہاں امدادی ادارے کہہ رہے ہیں کہ قحط پڑا ہوا ہے۔

ان کا یہ کہنا ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب پانچ ماہ تک اسرائیل کے ساتھ یک جان و دوقالب کی طرح حمایت کرنےوالے کئی دوسرے ملکوں کی طرف سے بھی اب اسی طرح کی تشویش اور خدشات کا اظہار کیا جانے لگا ہے۔

مگر جرمن رہنما کی طرف سے یہ انتباہ غیر معمولی طور پر سخت تھا۔ بلا شبہ جرمنی بھی وہی ملک ہے جس نے اسرائیل کے حق دفاع پر ہمیشہ زور دیا ہے۔ اسرائیل کے لیے غزہ میں من مانی کے لیے اس سے اچھا موقع کوئی اور نہیں رہا تھا۔

جرمنی امریکہ کی طرح اسرائیل کے مضبوط ترین اتحادیوں میں سے ایک ہے۔ جو نازیوں کے ہاتھوں یہودی ‘ ہولو کاسٹ’ کے کفارے کے طور پر بھی اسرائیل کی بڑھ کر حمایت کے طور پر اسرائیل کو عملا ً دوسروں کو قتل کرنے کا کھلا لائسنس دینے کا رجحان ظاہر کرتا رہپے۔ تاہم اتوار کے روز شولز کا کہجہ تشویش انگیز تھا۔

شولز نے کہا ‘ غزہ کے لوگوں کی حالت جس قدر تشویش ناک ہوتی جائے گی۔ اسی قدر سوال جنم لیتا رہے گا۔ حتیٰ کہ یہ سوال بھی اہم نہ رہے گا کہ ہدف کتنا اہم تھا ، میں کہوں گا کہ اس کے باوجود غزہ کے لوگوں سے اتنی بڑی قیمت وصول کرنے کا جواز زیر بحث آئے گا۔ ان کا کہنا تھا ‘ کیا آپ کے پاس اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے کوئی اور طریقہ نہیں ۔’

اہم بات ہے کہ میڈیا کے ساتھ ان کی یہ بات چیت نیتن یاہو کی موجودگی میں بلکہ ان کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران تھی۔

ان کی اس تشویش کا اظہار اسرائیل کی طرف سے رفح پر زمینی حملے کی منظوری کے دو روز بعد اسرائیلی دورے کے موقع پر سامنے آیا ہے، اسرائیلی وزیر اعظم اور ان کی کابینہ نے جمعہ کے روز رفح پر حملے لیے فوجی منصوبے کی باضابطہ منظوری دی ہے۔

انہوں نے رفح کے حوالے سے بھی کہا 15′ لاکھ لوگوں کو کس طرح تحفظ دیا جائے گا، وہ کہاں جائیں گے، اس لیے خطرہ ہے کہ رفح پر حملے کی صورت میں بہت بڑی تعداد میں ہلاکتیں مزید ہوں گی اور خطے کے امن کے لیے یہ حملہ خطرہ بن جائے گا، یہ بہت مشکل صورت حال بن جائے گی۔’

شولز نے اس دورہ اسرائیل سے پہلے اردن کے شاہ عبداللہ سے اردن میں ملاقات کی تھی۔ یہ ملاقات بحیرہ احمر کی بندرگاہ عقبہ پر ہوئی۔

جرمن چانسلر نے غزہ میں امدادی سرگرمیوں کی راہ میں رکاوٹوں کے بارے میں کہا ‘میں نے اس بارے میں نیتن یاہو سے بات کی ہے کہ اس سلسے کی حالت بہتر کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر بہت زیادہ بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ہم فلسطینیوں کو بھوک کے خطرے سے دوچار دیکھ کر محض کھڑے نہیں رہ سکتے۔ ‘ انہوں نے مزید کہا ‘ ہم ایسے نہیں ہو سکتے۔ نہ ہی یہ و چیز ہو سکتی ہے جس کے لیے ہم کھڑے ہیں۔ ‘

دو ریاستی حل کے بارے میں چانسلر شولز نے کہا ‘ پائیدار استحکام اونچی دیواروں سے نہیں آئے گا اور نہ ہی یہ گہری خندقوں سے ائے گا۔’ انہوں نے واضح انداز میں کہا ‘ استحکام مثبت تناظر سے ممکن ہوگاایسا مثبت تناظر جو اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں کے لیے ہو۔مطلب یہ کہ دو ریاستی حل ضروری ہے۔’

انہوں نے اس پس منظر میں فلسطینی اتھارٹی کو بھی اصلاحات کے لیے کہا ۔ نیز انفرادی سطح پر بہتری کے ساتھ ساتھ اجتماعی انفراسٹرکچر کومضبوط کرنے کے لیے کہا۔

شولز نے کہا ‘ اسرائیل کی نئی نسلوں کے لیے پائیدار استحکام و سلامتی فلسطینیوں سے جڑا ہوا ہے، نہ فلسطینیوں کے خلاف لڑتے رہنے سے ملے گا،دہشت گردی کو بھی صرف فوجی ذرائع سے شکست نہیں دی جا سکتی ہے۔’

نیتن یاہو نے جواب دیتے ہوئے کہا ‘ ایک معاہدہ جو اسرائیل کے نزدیک کمزور بنیادوں پر ہوگا وہ ایک ناپائیدار امن ہی لا سکتا ہے۔’

شولز نے اس سے قبل اردن میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا’ یہ بہت واضح ہے کہ ہمیں وہ سب کچھ کرنا ہو گا، کیونکہ صورت حال پہلے ہی بہت خراب ہوچکی ہےاسے مزید خراب نہیں ہونا چاہیے۔’ تاہم شولز نے اس بارے میں براہ راست جواب نہیں دیا کہ اسرائیل کے رفح پر حملے کی صورت میں جرمنی رد عمل دے گا یا نہیں خصوصاً اسرائیل کیو اسلحہ کی برآمد کرنے کے سلسلے میں ؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *